چھاتیوں کے سرطان کی قومی مُہم کے مطابق ،پاکستان میں چھاتیوں کے سرطان کی شرح ،کسی بھی ایشیائی آبادی سے زیادہ ہے یعنی یہ سرطان ہر سال 40,000 عورتوں کی موت کا سبب بنتاہے۔تقریبأٔ ہر 9عورتوں میں سے 1عورت کو چھاتیوں کا سرطا ن ہوجاتا ہے۔
سرطان کی ابتدا اُس وقت ہوتی جب جسم کے خلیات کی تقسیم کا عمل غیر نارمل ہوجاتا ہے۔نارمل خلیات بڑھتے ہیں اور تقسیم کے عمل سے گزرتے ہیں، تاکہ نئے خلیات بنتے جائیں اور وہ مُردہ خلیات کی جگہ اپنا کام سنبھال لیتے ہیں،تاہم بعض اوقات خلیات ایسے وقت بن جاتے ہیں جب اُن کی ضرورت نہیں ہوتی یا پُرانے خلیات اپنے وقت پر مرتے نہیں ہیں۔
اِس طرح خلیات کی کثیر تعداد جلد ہی ایک گروپ کی شکل میں جمع ہوکر گلٹی نما مادّے یا ٹیومر کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔یہ ٹیومر اپنی نوعیت کے لحاظ سے غیر سرطانی یا سرطانی ہو سکتا ہے ۔سرطانی ٹیومر اِرد گِرد کے خلیات اور عضلات کو تباہ کردیتا ہے۔
سرطان کا نام اکثر اوقات ،متعلقہ ٹیومر کے ابتدائی مقام کے لحاظ سے رکھا جاتا ہے۔اِسی طرح چھاتیوں کے سرطان کے نام کی وجہ یہ ہے کہ اِس صورت میں چھاتیوں کے خلیات کی تقسیم کے عمل میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔چھاتیوں کے زیادہ تر سرطان یا تو چھاتیوں کے اندر نالیوں (ductal carcinoma) میں ہوتے ہیں یا پھر چھاتیوں کی گولائی (lobular carcinoma) میں خوابیدہ (غیر عامل)رہتے ہیں، تاہم سرطان چھاتیوں کے دِیگر عضلات میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
چھاتیوں کی بناوٹ میں ،چربی، غدود، اور جوڑنے والے (ریشے دار) عضلات شامل ہوتے ہیں۔چھاتیوں کے اندر گولائی والی بہت سی ساختیں ہوتی ہیں۔یہ ساختیں مزید چھوٹی گولائیوں میں تقسیم ہوتی ہیں،جن کا اختتام دودھ کے غدود پر ہوتا ہے ۔بہت سے چھوٹے چھوٹے غدود سے ،بہت سی چھوٹی نالیاں نکلتی ہیں، پھر یہ آپس میں مِل جاتی ہیں اور اِن کا اختتام نپل پر ہوتا ہے۔
زیادہ تر صورتوں میں سرطان ،چھاتیوں کی نالیوں میں پیدا ہوتا ہے ۔یہ کیفیت نالیوں کا سرطان کہلاتی ہے۔
چھوٹی گولائیوں میں پیدا ہونے والے سرطان کو ،گولائیوں کا سرطان کہا جاتا ہے ۔چھاتیوں کے سرطان میں سے تقریبأٔ 10سے15فیصد تعدا دکا تعلق ،اسی قِسم کے سرطان سے ہوتا ہے۔
چھاتیوں کے سرطان کی دِیگر نسبتأٔ کم عام اقسام بھی شامل ہیں،مثلأٔ،چھاتیوں کا سُوجن والاسرطان ، medullar سرطان، مخلوط ٹیومرز، اور سرطان کی وہ قِسم جس میں نپل متاثر ہوتے ہیں اور اسے Paget’s disease کہا جاتا ہے۔
چھاتیوں کے سرطان کی یہ قِسم اپنے مقام (نالیوں یا چھاتی کے اندر پائی جانے والی گول ساختوں)سے ،اِرد گِرد کے عضلات اورجسم کے دِیگر حِصّوں کی جانب منتقل ہوجاتی ہے۔
چھاتیوں کا پھیلنے والا سرطان
چھاتیوں کے سرطان کی یہ قِسم اپنے مقام (نالیوں یا چھاتی کے اندر پائی جانے والی گول ساختوں)سے ،اِرد گِرد کے عضلات اورجسم کے دِیگر حِصّوں کی جانب منتقل نہیں ہوتی۔
جب سرطان ،اِرد گِرد کے عضلات میں پھیلتا ہے تو اِسے ،سرایت (infiltrating) کرنے ولا سرطان کہا جاتا ہے۔چھاتیوں کی نالیوں سے اِرد گِرد کے عضلات میں سرایت کرتا ہے تو اِسے نالیوں سے سرایت (infiltrating ductal carcinoma) کرانے ولا سرطان کہا جاتا ہے۔اور جب سرطان چھاتیوں کی اندرونی گولائیوں سے اِرد گِرد کے عضلات میں سرایت کرتا ہے تو اِسے اندرونی گولائیوں سے سرایت (infiltrating lobular carcinoma) کرانے ولا سرطان کہا جاتا ہے۔
سرطان کی سب سے زیادہ سنگین قِسم Metastatic سرطان ہوتی ہے۔اِس قِسم کے سرطان میں ، یہ ٹیومر کے ابتدائی مقام سے پھیل کر جسم کے دُور کے عضلات تک پہنچ جاتا ہے ۔جس طرف چھاتیوں کا سرطان ہوتا ہے ،زیادہ تر صورتوں میںاُسی جانب ،بغلوں کے نیچے پائی جانے والی لمف نوڈز ،یا ہنسلی کی ہڈی (collar bone) کے بالائی حِصّے تک پہنچ جاتا ہے۔دِیگر صورتوں میں چھاتیوں کا سرطان پھیل کر دِماغ، ہڈیوں اور جگر تک پہنچ جاتا ہے۔
چھاتیوں کا دوبارہ ہوجانے والا سرطان
یہ سرطان کی وہ قِسم ہوتی ہے جو علاج ہو جانے سے کچھ عرصہ بعد دوبارہ لاحق ہوجاتی ہے ۔یہ سرطان چھاتیوں یا سینے کی دیوار یا جسم کے کسی بھی حِصّے کو متاثر کر سکتا ہے۔
۔ماہواری کے دورانیوں کو بڑھانے والے عوامل ،چھاتیوں کے سرطان کے خطرے کو بھی بڑھاتے ہیں ۔بہت ممکن ہے کہ بہت طویل عرصے تک اندرونی ہارمونز مثلأٔ ایسٹروجین کے اثرات کی وجہ چھاتیوں کا سرطان ہوجاتا ہے۔اِن عوامل میں درجِ ذیل شامل ہیں:
مُٹاپا، زائد مقدار میں الکحل کااستعمال، زیادہ وقت بیٹھنے کا طرز زندگی ،چھاتیوں کے سرطان کاخطرہ بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
چھاتیوں کے سرطان کے ابتدائی مراحل میں اِس کی کوئی علامات نہیں ہوتیں۔عام طور پر اِس کی وجہ سے درد بھی نہیں ہوتا۔زیادہ تر صورتوں میں ،چھاتیوں کے سرطان کا ،اِس کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے پتہ لگایا جاسکتا ہے ۔یا تو میموگراف میں کوئی غیر نارمل بات نظر آتی ہے (ذیل میں دیکھئے)یا چھاتی کے اندر قدرے سخت گلٹی نما ساخت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔اِسی قِسم کی گلٹی اگر بغل میں ہو یا ہنسلی کی ہڈی سے اُوپر ہو جس کا علاج ممکن نہ ہو رہا ہو ،یہ ممکنہ طور پر سرطان کی علامت ہے۔دِیگر علامات میں ،ایک جانب سے نپل میں خون آنا، حال ہی میں نپل کا اُلٹ جانا، یا چھاتی کی جلد میں تبدیلیاں ،مثلأٔ جِلد سُرخ ہونا، اور اِس میں گڑھے پڑنا۔چھاتیوں میں پائی جانے والی گلٹی نما ساختیں ،سرطان نہیں ہوتیں۔تاہم اِن تمام ساختوں کا ڈاکٹر سے معائنہ کروانا چاہئے۔
چھاتیوں کا سرطان،چند مہینوں یا سالوں کے دوران بڑھتا ہے ۔ایک بار اِس کی تشخیص ہوجانے کے بعد، اِس کے علاج کے حوالے سے جلد پیش رفت ہونے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔کیوں کہ چھاتیوں کے سرطان کے پھیلنے کے دوران اِس کا علاج کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔درجِ ذیل میں سے کسی بھی علامت ظاہر ہونے کی صورت میں آپ کو اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہئے:
چھاتیوں کے سرطان کی تشخیص کے ،عام طور پر کئی مراحل ہوتے ہیں۔اِن مراحل میں ،چھاتیوں کا معائنہ، ممکنہ طور پر الٹراسونوگرافی یا ایم آر آئی ،اور با لآخر بائیوپسی کرنا شامل ہے۔صِرف بائیوپسی کے ذریعے ہی ،سرطان کی یقینی طور پر تشخیص کی جا سکتی ہے۔
چھاتیوں کے مکمل معائنے میں،چھاتیوں ،بغلوں اور ہنسلی کے اِرد گِرد کے حِصّوں کوکو نظر سے دیکھنا اوراِن کو ہاتھ سے چُھو کر محسوس کرنا شامل ہیں ۔اِس معانے کے دوران آپ کے معالج کو کوئی گلٹی نما ساخت یا کچھ موٹائی محسوس ہوسکتی ہے۔
میموگرام ،چھاتیوں کا ایکس رے ہوتا ہے ،جس کی مدد سے گلٹی نما ساخت کی نوعیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔سرطان کے ابتدائی مراحل کا پتہ چلانے کے لئے بھی میموگرام کروانے کا مشورہ دِیا جاتا ہے۔عام طور پر میموگرام کو دیکھ کر بتایا جا سکتا ہے کہ آیا گلٹی نما ساخت سرطان ہے یا نہیں، تاہم کوئی بھی ٹیسٹ 100 فیصد قابلِ اعتماد نہیں ہوتا ۔میموگرام کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ،10 سے 15 فیصد صورتوں میں ،میموگرام کے ذریعے سرطان کی تشخیص نہیں ہو پاتی ،جب کہ سرطان موجود تھا۔
میمو گرام کو دِیگر ٹیسٹوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ،کیوں کہ صِرف میموگرام ،گلٹی نما ساخت کا پتہ لگانے کے لئے کافی نہیں ہوتا۔
اکثر اوقات نوعمر مریضوں میں گلٹی نما ساخت کا پتہ چلانے کے لئے ،اُن کاالٹر ساؤنڈ کیا جاتا ہے ۔الٹرا ساؤنڈ کی لہروں سے ،چھاتی کے اندرونی حِصّوں کی ’’تصویر ‘‘ بن جاتی ہے۔اِ س سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ آیا مادّے میں رطوبت بھری ہوئی ہے (cystic) یا یہ ٹھوس ہے۔سرطان کی صورت میں عام طور پریہ مادّہ ٹھوس ہوتا ہے ،جب کہ بہت سے cysts غیر فعّال ہوتے ہیں۔الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے بائیوپسی یا رطوبت کو نکالنے کے سلسے میں بھی راہ نمائی حاصل ہو سکتی ہے۔
ایم آر آئی کے ذریعے مزید اِضافی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں اور میموگرافی یا الٹرا ساؤنڈ سے حاصل ہونے والی معلومات کی وضاحت ممکن ہو جاتی ہے۔اگرچہ سرطان کی تشخیص کے لئے ،ایم آر آئی کروانا معمول کی بات تو نہیں ہے تاہم مخصوص صورتوں میں ،ایم آر آئی کروانے کا مشورہ دِیا جاسکتا ہے۔
چھاتیوں کے سرطان کا یقینی طور پ پتہ چلانے کا واحد یقینی طریقہ متعلقہ عضلات کی بائیوپسی کروانا ہے۔بائیوپسی کے معنیٰ یہ ہیں کہ متعلقہ عضلہ کا ایک بہت ہی چھوٹا ٹکڑا لے کر ،ایک پیتھا لوجسٹ اِس کا معائنہ اور ٹیسٹ کرتا ہے۔پیتھالوجسٹ مرض کی تشخیص کرنے کے سلسلے میں خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہوتے ہیں،جو خورد بین کے ذریعے خلیات اور عضلات کو جانچ کر بتا سکتے ہیں کہ آیا سرطان موجود ہے یا نہیں۔
بائیوپسی کرنے کے لئے بہت سے طریقے دستیاب ہیں۔
اِس عمل میں ایک باریک سُوئی کو چھاتی کے اندر داخل کر کے چند خلیات کھینچ نکالے جاتے ہیں ،اور اِن خلیات کامعائنہ پیتھا لوجسٹ کرتا ہے۔
یہ طریقہ عام طور پر ، مادّے میں رطوبت بھری ہونے کی صورت میں کیا جاتا ہے ، جب کہ سرطان کا اِمکان نہ پایا جائے۔ سُوئی کے ذریعے مرکزی حِصّے کی بائیوپسی
اِس عمل میں ایک خاص بناوٹ کی سُوئی استعمال کی جاتی ہے، جس کے ذریعے متعلقہ عضلہ کا ایک تھوڑا سا حِصّہ معائنے کے لئے لے لیا جاتا ہے۔ عام طور پر اِس سُوئی کو،الٹراساؤنڈ یا میمو گرام سے راہ نمائی حاصل کرتے ہوئے ، شُبہ والی جگہ میں داخل کیا جاتا ہے ۔ اِس طریقہ کا استعمال بڑھ رہاہے ،کیوں کہ اِس طریقے میں، آپریشن کے ذریعے کی جانے والی بائیوپسی کے بر عکس چیر پھاڑ کا عمل محدود ہوتا ہے۔اِس طریقے میں متعلقہ مادّے کو مکمل طور پر نکالنے کے بجائے ،اِس عضلہ کا صِرف نمونہ حاصل کیا جاتا ہے۔بعض اوقات ،اگر یہ مادّہ ہاتھ چُھو کر محسوس کیا جاسکتا ہو تو، مطلوبہ خلیات کو مزید راہ نمائی کے بغیر ایک سُوئی کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اِس عمل میں چھاتی کے اند رچیر الگایا جاتا ہے اور متعلقہ عضلہ کا ایک حِصّہ حاصل کیا جاتا ہے۔ بعض ایسے طریقے بھی دستیاب ہیں جن کے ذریعے مکمل مادّہ کو باہر نکال لیا جاتا ہے۔
بائیوپسی کے طریقے سے قطع نظر ،پیتھالوجسٹ متعلقہ عضلہ کا معائنہ کرے گا۔اگر بائیوپسی کے نتیجے میں سرطان کی تشخیص ہوتی ہے تو متعلقہ عضلہ کا ٹیسٹ، ہارمون وصولی کے مقامات (hormone receptors) کے لحاظ سے ٹیسٹ کیا جائے گا۔یہ مقامات ،ٹیومر کی سطح پر پائے جاتے ہیں جو ایسٹروجین یا پراجسٹرون سے منسلک ہوجاتے ہیں۔عمومی طور پر،ہارمون وصولی کے مقامات کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی ، ٹیومر اسی تناسب سے ،ہارمونی علاج کے لحاظ سے حِسّاس ہوگا۔اِس کے علاوہ دِیگر ٹیسٹ بھی (مثلأٔ HER-2/neu کی وصولی کے مقامات کی پیمائش)کئے جاسکتے ہیں تا کہ متعلقہ ٹیومر کی خصوصیات معلوم کی جاسکیں ،اور اِس ضمن میں مؤثر ترین علاج طے کیا جاسکے۔
چھاتیوں کے سرطان کی علامات اور نشانیوں کے بارے میں آگہی کے ذریعے ،اِس سرطان کی جلد تشخیص میں مدد مِل سکتی ہے۔چھاتیوں کے سرطان کے علاج کا دارومدار ،اِس کی قِسم اور اِس کے مرحلے پر ہوتا ہے۔آپریشن، شُعائیں، ہارمونی عوامل، یا کیمیائی علاج وغیرہ ،اِس سرطان کے علاج میں شامل ہوسکتے ہیں۔عام طور علاج کو دَو درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ،یعنی طبّی طریقوں کے ذریعے علاج یا آپریشن کے ذریعے علاج۔
بہت سی عورتوں کو ،آپریشن کے علاوہ ،طبّی طریقوں سے بھی علاج کروانے کی ضرورت ہوتی ہے،جن میں شُعاؤں ،کیمیائی اور ہارمونی طریقے سے علاج کرنا شامل ہوسکتا ہے۔ اِضافی علاج کے بارے میں فیصلہ، سرطان کی قِسم اور اس کے مرحلے ، ہارمون کی وصولی یا HER-2/neu کی وصولی کے مقامات،متعلقہ مریض کی صحت اور اُس کی ترجیحات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
اگر آپریشن کے بعد ،ٹیومر کے کچھ خلیات باقی رہ جائیں تو انہیں ختم کرنے کے لئے شُعاؤں سے علاج کیا جاتا ہے۔شُعاؤں کے ذریعے علاج مقامی نوعیت کا ہوتا ہے ، لہٰذا یہ ٹیومر کے صِرف اُن خلیات پر اثر انداز ہوتی ہیں جو شُعاؤں میں براہ راست واقع ہوں۔شُعاؤں کے ذریعے علاج ہفتے میں 5 دِن اور 5 سے 6 ہفتوں تک کیا جاتا ہے ۔اور ہر وزٹ میں صِرف چند منٹ کا وقت خرچ ہوتا ہے۔شُعاؤں سے علاج میں کوئی درد یا تکلیف نہیں اورذیلی اثرات بھی نسبتأٔ کم ہوتے ہیں۔تاہم شُعاؤں کی وجہ سے جِلد میں بے آرامی یا ہلکی جلن ہو سکتی ہے۔
اِس طریقہ علاج میں ،ایسی کیمیائی ادویات دی جاتی ہیں جو یا تو سرطان کے خلیات کو ختم کر دیتی ہیں یا ان کی مزید افزائش کو روک دیتی ہیں۔
کیمیائی علاج عام طور پر’’دورانیوں‘‘ میں کیا جاتا ہے۔ہر دورانئے میں ایک بار شِدّت سے علاج کیا جاتا ہے جس کا دورانیہ چند دِن یا چند ہفتوں تک جاری رہتا ہے ، اِس کے بعدایک یا دَو ہفتے تک بحالی کا وقفہ کروایا جاتا ہے۔چھاتیوں کے سرطان والے زیادہ تر افراد کا ابتدا میں ، دَو یا پھر اکثر اوقات چار،دورانیوں میں علاج کیا جاتا ہے۔اِس کے بعد ٹیسٹ دوبارہ کئے جاتے ہیں تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیمیائی علاج کا سرطان پر کس حد تک کامیاب اثر ہُوا ہے۔
کیمیائی علاج ،شُعاؤں کے ذریعے علاج سے ،اِس لحاظ سے مختلف ہوتا ہے کہ کیمیائی علاج میں پورے جسم کا علاج ہوتا ہے اور اِس طرح چھاتی کے علاقے سے باہر ،جسم میں دُور کے حِصّوں کی جانب منتقل ہوجانے والے سرطانی خلیات کو بھی نشانہ بناتا ہے۔
کیمیائی علاج سے پیدا ہونے والے ذیلی اثرات کے بارے میں کافی معلومات دستیاب ہیں۔اِن ذیلی اثرات کی نوعیت کا دارومدار،استعمال کی جانے والی ادویات پر ہوتا ہے۔کیمیائی علاج کی بہت سی ادویات کے ذیلی اثرات کے طور پر بالوں کا گِرنا، متلی اور اُلٹی ہونا،بھوک کی کمی، تھکن، اور خون کے خلیات کی تعداد میں کمی ہونا وغیرہ شامل ہیں۔خون کے خلیات کی کمی کی وجہ سے مریضوں کے لئے انفکشن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ، وہ خود کو بیمار اور تھکا ہُوا محسوس کرتے ہیں، یا معمول کی نسبت اُن کا خون جلد بہنے لگتا ہے ۔ایسی ادویات دستیاب ہیں جن کے ذریعے اِن ذیلی اثرات کا علاج یا اِن سے بچاؤحاصل کرنا ممکن ہے۔
ہارمونی علاج بھی کیا جاسکتا ہے کیوں کہ چھاتیوں کے سرطان(خاص طور پر ایسے سرطان جن میں ایسٹروجین یا پروجسٹیرون کی وصولی کے مقامات زیادہ ہوتے ہیں) ، اکثر صورتوں میں ہارمونی تبدیلیوں کے حوالے سے حِسّاس ہوتے ہیں۔ہارمونی علاج ٹیومر کے دوبارہ پیدا ہونے بچنے یا موجودہ مرض کے علاج کے لئے کیا جاتا ہے ۔
چھاتیوں کے سرطان کی تشخیص کے بعد ،عام طور پر ،آپریشن پہلا قدم ہوتا ہے۔آپریشن کی نوعیت ،ٹیومر کی جسامت اور اِس کی قِسم ،مریض کی صحت اور اُس کی ترجیحات پر منحصر ہوتی ہے ۔
اِس طریقے میں ،سرطانی عضلہ اور اس سے ملحقہ نارمل حِصّوں کو کاٹ کر الگ کیا جاتا ہے ۔اِس طریقے کو معالجہ تصور نہیں کیا جاتا ،بلکہ یہ طریقہ دِیگر طبّی طریقوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے ،مثلأٔ کیمیائی علاج کے ساتھ یا اِس کے بغیر ،شُعاؤں کے ذریعے علاج یا ہارمونی علاج کے ساتھ۔
اِس طریقے میں متاثرہ چھاتی کو مکمل طور نکلا دِیا جاتا ہے لیکن کسی اور حِصّے کو نہیں نکالا جاتا۔اگر سرطان پھیلنے والی قِسم کا ہوتا ہے ،تو صِرف یہ آپریشن مکمل علاج ثابت نہیں ہوگا۔ یہ آپریشن DCIS(چھاتیوں کا وہ سرطان جو جسم کے دِیگر حِصّوں تک پھیلتا نہیں ہے)کے علاج کا ایک عام طریقہ ہے۔
اِس طریقے میں متاثرہ چھاتی اور ذیلی (بغل میں پائی جانے والی )لمف نوڈز کو کاٹ کر نکال دِیا جاتا ہے لیکن سینے کی دیوار کے ساتھ پائے جانے والے عضلات کو نہیں نکالا جاتا۔اگرچہ اِضافی کیمیائی علاج یا ہارمونی علاج تقریبأٔ ہمیشہ پیش کیا جاتا ہے ،تاہم اِس مرض کو کنٹرول کرنے کے لئے صِرف اِس آپریشن ہی کو کافی خیال کیا جاتا ہے بہ شرط یہ کہ یہ پہلے ہی سے metastasized نہ ہوچکا ہو۔
اِس طریقے میں متاثرہ چھاتی اور بغل میں پائے جانے والے مواداور سینے کی دیوار کے ساتھ پائے جانے والے عضلات کوبھی نکالا جاتاہے۔اِس قِسم کے آپریشن اب نہیں کئے جاتے کیوں اب فی الوقت دستیاب طریقوں میں جسمانی بگاڑ محدود ہوتا ہے اور پیچیدگیاں بھی کم ہوتی ہیں۔
جن افراد کے لئے ،چھاتیوں کے سرطان کی تشخیص ہو چکی ہو،اُنہیں زندگی بھر توجّہ سے فالو اَپ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔علاج مکمل ہونے کے بعد ابتدائی طور پر پہلے دَو سے تین سال کے دوران ،ہر 3سے6ماہ پر فالو اَپ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
فالو اَپ دیکھ بھال میں ،چھاتیوں کا معائنہ، میموگرافی، خون ، اور ممکنہ طور پر سینے کا ایکس رے ،اور دِیگر ٹیسٹ ،مثلأٔ ہڈّیوں کی اِسکیننگ، یا سی ٹی اِسکین وغیرہ۔
چھاتیوں کے سرطان کا علاج پاکستان کے،ذیلی دیکھ بھال کے ، تمام بڑے ہسپتالوں میں کیا جاتا ہے۔ چھاتیوں کے سرطان میں ،ایک سے زائد شُعبوں سے مدد لینے کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔اِس طریقہ کار میں زیادہ تر آپریشن اور سرطان کے شُعبے شامل ہوتے ہیں۔ذیلی دیکھ بھال کے ہسپتالوں میں، چھاتیوں کے کلینک ، چھاتیوں کے سرطان کے مریضوں کے لئے خصوصی دیکھ بھال فراہم کرتے ہیں۔چھاتیوں کے کلینک ،عمومی آپریشن کے شُعبے کے تحت کام کرتے ہیں ۔یہ شُعبہ چھاتیوں کے سرطان کی آپریشن کے حوالے سے دیکھ بھال کرتا ہے۔ذیلی دیکھ بھال کے ہسپتال،یا خصوصی نیوکلیائی ،اور شُعاؤں سے علاج کے یونٹس ،چھاتیوں کے سرطان کا طبّی علاج فراہم کرتے ہیں ،مثلأٔ شُعاؤں سے علاج، ہارمونی یا کیمیائی علاج وغیرہ ۔
چھاتیوں کے سرطان کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم عوامل میں ،جنس، عمر اور جینیات شامل ہیں۔کیوں کہ عورتیں اِن خطرات کے ضمن میں کچھ نہیں کر سکتیں، لہٰذا،باقاعدگی سے اِسکریننگ کی تجویز دی جاتی ہے تا کہ اِس سرطان کی تشخیص جلد ممکن ہوسکے اور اِس طرح چھاتیوں کے سرطان کی وجہ سے ہونے والی اموات کی روک تھام کی جاسکے۔
باقاعدگی سے اِسکریننگ میں،چھاتیوں کا ذاتی معائنہ ، کلینک میں چھاتیوں کا معائنہ ، اور میموگرافی وغیرہ شامل ہیں۔
جن عورتوں کو ماہواری آتی ہے ،اُن کے معائنے لئے ،بہترین وقت ماہواری کے اختتام کے فورأٔ بعد کا وقت ہوتا ہے۔
جن عورتوں کو ماہواری نہیں آتی ہے ،یا جن کی ماہواری انتہائی بے قاعدگی سے آتی ہے،اُن کے معائنے لئے ،ہر ماہ کی کوئی مخصوص تاریخ مقرر کر لینا بہترطریقہ معلوم ہوتا ہے۔ چھاتیوں کے ذاتی معائنے کے حوالے سے ہدایات ،چھاتیوں کے کلینک سے وابستہ ڈاکٹر سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
طبّی لحاظ سے چھاتیوں کا معائنہ : طبّی لحاظ سے چھاتیوں کے معائنے کی تعدا د کا دارومدار ،اِس سرطان کے بڑھنے کے بلند خطرے یا کم خطرے کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ سرطان کی امریکی سوسائٹی کی جانب سے یہ تجویز دی گئی ہے کہ ،20 سال کی عمر سے ہر تین سال بعد ،اور 40سال کی عمر سے ہر سال ،صحت کے تربیت یافتہ خدمت فراہم کرنے والے فرد کی جانب سے چھاتیوں کامعائنہ کیا جانا چاہئے۔
40سال کی عمر سے ،ہر ایک یا دَو سال کے وقفے سے میموگرام کروانے کی تجویز پیش کی جاتی ہے ۔جن عورتوں کو ،چھاتیوں کا سرطان ہونے کا بلند خطرہ ہو ،اُن کے لئے میموگرام اِسکریننگ کا آغاز جلد کیا جاسکتا ہے ،عام طور پر اُس عمر سے 10سال پہلے ،جب سب سے زیادہ نو عمر قریبی رشتہ کو چھاتیوں کا سرطان ہُوا تھا۔
طرز زندگی میں تبدیلی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔جسمانی طور پر فعّال عورتوں میں ،چھاتیوں کا سرطان ہونے کا اِمکان کم ہوتا ہے ۔تمام عورتوں کو تجویز دی جاتی ہے کہ وہ جسم کا وزن نارمل حدود میں قائم رکھیں ،خاص طور پر،(عمر کے زیادہ ہونے کے سبب) ماہواری بند ہوجانے کے بعد سے،اور الکحل کا استعمال محدود کر دینا چاہئے۔ طبّی طور پر ضرورت ہونے کی صورت میں بھی ،ادویات کی صورت میں ہارمون لینے کا دورانیہ مختصر ہونا چاہئے۔
آپ کا ای میل کرنے کے لئے شکریہ ، آپ کو 24 گھنٹے میں جواب دیا جائے گا .