اِن سادہ اُصولوں کے ذریعے ،ساتھیوں کے درمیان بات چیت میں بہتری آنا شروع ہوسکتی ہے ،اوراس طرح ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے ،بات چیت کھلے انداز میں ہو سکتی ہے ،اور ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ صحت مند تعلق قائم ہو سکتا ہے۔
ازدواجی جبری جنسی ملاپ کی تعریف یہ ہے کہ ،شوہر یا سابق شوہر کی جانب سے ،بغیر اجازت کوئی غیر مطلوبہ جنسی عمل جبری طور پرکیا جائے ۔اور اس سلسلے میں طاقت کا استعمال یا طاقت استعمال کرنے کی دھمکی ،ہراساں کرنا، یا جب متعلقہ فرد اجازت نہ دے سکتا ہو،اس کے باوجود جنسی ملاپ اور متعلقہ حرکات و سکنات شامل ہیں۔
اِن جنسی حرکات و سکنات میں ،فُرج یا مقعد یا مُنہ کے راستے جنسی ملاپ، دوسرے افراد کے ساتھ جبری طور پر جنسی روّیوں میں ملوّث کرنا، شامل ہیں ۔یا متعلقہ فرد کو ایسی جنسی سرگرمیوں میں شامل ہونے پر مجبور کرنا جسے وہ توہین آمیز ،بے وقاری ، درد انگیز اور غیر مطلوبہ سمجھتے ہوں۔
بد قسمتی سے پاکستان میں ، ازدواجی جبری جنسی ملاپ کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیںلہٰذا،اس سلسلے میں قانونی چارہ جوئی حاصل نہیں کی جاسکتی،اس طرح متاثرہ خواتین کو قانون کی مدد حاصل نہیں ہوتی اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو انصا ف کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکتا۔
وہ صِرف مشاورت کاری اور طبّی امداد حاصل کر سکتی ہیں ،یا انتہائی صورتوں میں شادی ختم کرنے کا ہی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔یہ بات اہم ہے کہ عورتوں کو تعلیم دلوائی جائے اور اُنہیں آگاہ کیا جائے کہ ازدواجی جبری جنسی ملاپ بدسلوکی کی ایک قِسم ہے ،خواتین کی تعلیم کے حصو ل اور مالی آزادی کے سلسلے میں حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ وہ مسلسل طور پر بدسلوکی کا شکار نہ ہوں۔
خواتین کی جانب سے ممکنہ طور پر پوچھے جانے چند سوالات:
جواب”جب آپ کا شوہر آپ کوکسی ایسے جنسی عمل کے لئے مجبور کرے جس کے لئے آپ رضامند نہ ہوں ،تو یہ عمل ازدواجی جبری جنسی ملاپ کہاجاتاہے” ۔ یہ قریبی ساتھی کی جانب سے تشدد کی ایک قِسم ہے۔یعنی ایک ساتھی کی جانب سے دوسرے ساتھی پر غلبہ اور کنٹرول حاصل کرنے کے لئے طاقت کا بے جا استعمال کرنا۔جبری ازدواجی تعلقات ،ازدواجی حق نہیں ہے!
جواب: قانونی طور پر، جبری جنسی ملاپ کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
جواب: پاکستان میں تو نہیں تاہم بہت سے ممالک میں یہ جُرم شمار ہوتا ہے۔ایسے ممالک میں ،بھارت ،سری لنکا، فرانس، جرمنی، کینیڈا ،اور نیپال شامل ہیں۔ مکمل فہرست: آرجینٹائن، آسٹریلیا ، آسٹریا ، باربا ڈوس، بیلائز، بلغاریہ ، کینیڈا ، کروشیا، قبرص، ڈنمارک، ایکواڈور، انگلینڈ، جزائر فی جی ، فن لینڈ، فرانس، جارجیا، جرمنی ،ہنڈوراس، ہانگ کانگ، بھارت ، آئر لینڈ، اسرائیل، مقدونیہ ، میکسیکو، نمیبیا ، نیپال، نیدر لینڈز، نیوزی لینڈ، ناروے، فلپائن، پولینڈ، جنوبی افریقہ ، اسپین، سری لنکا ، سویڈن، تائیوان، ٹری نیڈاڈ/ ٹوباگو، امریکہ ، ازبکستان ، اور زمبابوے۔
ازدواجی جبری جنسی ملاپ (جیسا کہ بعض خواتین کے ذہن میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ جبری جنسی ملاپ واقعی بالجبر ملاپ ہے یا یہ محض شادی والا جنسی ملاپ ہوتا ہے)کے ساتھ معاشرتی بد نامی منسلک ہوتی ہے ۔اس کے ساتھ ثقافتی معمولات میں کہا جاتا ہے کہ شادی کے اندر ہر قِسم کے جنسی تعلقات قانون، باہمی رضامندی اور عورت مَرد کے حقوق پر مبنی ہوتے ہیں ۔اس کے ساتھ ،”ازدواجی جبری جنسی ملاپ ”کی اطلاع دینے پر ،شوہر کی جانب سے بد سلوکی کا خوف ،اپنے گھر اورسسرال والوں سے دُوری، اور معاشرتی بدنامی کا خوف(بات ظاہر ہونے کی صورت میں) کی وجہ سے اس معاملے کی اطلاع دینے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔
پا کستان میں ازدواجی جبری جنسی ملاپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی مثالیں بہت ہی کم ہیں۔اور اِس بات کا اِمکان ہے کہ متاثرہ فر د کی جانب سے صِرف کسی ہیلپ
گروپ سے ہی مدد یا مشاورت حاصل کی جائے گی ، لیکن شوہر کے خلاف ،متاثرہ عورت کی مدد کے لئے قانو ن موجود نہیں ہے۔
جواب: جی ہاں، اپنے آپ سے درجِ ذیل سوالات پوچھئے :
اگر مندرجہ بالا تمام سوالات یا چند یا کسی ایک بھی سوال کا جواب ”ہاں” میں ہے تو آپ ازدواجی جبری جنسی ملاپ کا شکار رہی ہیں۔
عورتوں کے لئے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ شادی مَرد اور عورت کے درمیان، باہمی احترام، محبت اور گہرے تعلق پر مبنی ایک معاہدے کا نام ہے۔مَرد اور عورت دونوں کو اپنے جسم پر حق حاصل ہے ،اور جبری جنسی سرگرمیوں سے کبھی محبت کا اِظہار نہیں ہوتا بلکہ یہ شوہر اور بیوی کے درمیان احترام اور اعتماد کے معاہدے کی دانستہ خلاف ورزی ہے ۔
ہمارے معاشرے میں اکثراوقات نو عمری کی شادی دیکھنے میں آتی ہے اور لڑکیوں کی شادی 18 سال سے کم یا اُن کی تعلیم مکمل ہونے سے پہلے کر دی جاتی ہے۔اوائل عمر کی شادی کے حوالے سے ہمیں،متعلقہ لڑکی کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں مثلأٔ جذباتی، نفسیاتی ،اور جسمانی بہتری کے بارے میں آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ کسی لڑکی کی زندگی کا بہترین حِصّہ اُس کی نو بلوغت کا زمانہ ہوتا ہے۔اس عرصے کو شادی کی ذمّہ داریوں اور دباؤ کے ذریعے مختصر کر دینے سے متعلقہ لڑکی کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں،اور اِن معاملات سے نمٹنا اُس کے لئے آسان نہیں ہوتا
2002ء میں، کاؤنسل برائے آبادی(پاپولیشن کاؤنسل)نے پیش گوئی کہ آنے والی دہائی کے دوران دُنیا بھر میں 100ملین سے زائد لڑکیوں کی شادی 18سال کی عمر سے پہلے ہوجائے گی۔اِن میں سے بعض لڑکیوں کی شادی 8یا9سال کی عمر میں اُن کی رضامندی کے بغیر ہو جائے گی(انٹرنیشنل ویمینز ہیلتھ پروگرام)۔
ایک نو عمر لڑکی کے والدین یا بعض صورتوں میں ،وسیع تر خاندان یا بستی (جرگہ ، برادری)اکثر حالات میں نو عمر لڑکی کی شادی کا فیصلہ کر تے ہیں۔بہت سے عوامل جو ایسے فیصلوں میں کردار ،ادا کر سکتے ہیں ان میں ثقافتی عقائد ، مالی حالات ، معاشرتی اور صنفی معمولات(مثلأٔ لڑکی اب جوان ہوگئی ہے ، شادی کے قابل ہے) شامل ہیں۔
بعض والدین سمجھتے ہیں کہ اپنی لڑکی کی شادی نو عمری میں کرنے سے وہ اُس کے معاشرتی کردار(یعنی بیوی اورماں )اور فرائض کو ادا کرنے کے سلسلے میں اُس کی مدد کررہے ہیں۔ وہ صحیح یا غلط طور پر یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اپنی لڑکی کو ایک ساتھی تک محدود (ایک ساتھی کے ساتھ جنسی ملاپ)کرنے سے اُس کے لئے جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض کا خطرہ کم ہو جاتا ہے ،اور اس سے شاید لڑکی اور اُس کے خاندان کے لئے معاشی توازن بھی حاصل ہو تا ہے۔
تاہم والدین کا اِرادہ خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو یا بدترین صورت یہ ہے کہ ایسا فیصلہ جبری طور پر کیا جائے ،نتیجے کے طور پر لڑکیاں اپنے بچپن اور اپنے خوابوں سے محروم ہو جاتی ہیں اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق اور اپنی صحت سے محروم ہو جاتی ہیں۔
نو عمری کی شادی کے بعد ،نو عمر لڑکیوں کو درپیش آنے والے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اُن پر بچّے پیدا کرنے اور خاندان کا آغاز کرنے کے لئے دباؤ ہوتا ہے۔نہ صِرف یہ کہ وہ ماں بننے کے عمل کی مشکلات بننے کے حوالے سے کم عمر ہوتی ہیں بلکہ 15سے 19سال کی نو عمر لڑکیوں کے لئے حمل اور زچگی کے دوران پیچیدگیاں پیدا ہونے کا اِمکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔اِن پیچیدگیوں میں جسم کا چِر جانا (obstetric fistula)بھی شامل ہے۔
اِس بات کا بھی اِمکان زیادہ ہوتا ہے کہ اُن کے بچّوں کا پیدائشی وزن اور خون کم ہو۔اور اُنہیں مناسب غذا حاصل نہ ہُوئی ہو۔
ایسی نو عمر ماؤں کی صحت کو، آگے چل کر ،ایک خطرہ بچّہ دانی کے مُنہ کا سرطان ہونے کا بھی ہو سکتا ہے ۔یہ بات سمجھنا اہم ہے کیوں کہ پاکستان میں باقاعدگی کے ساتھ پَیپ سمیئرز (pap smears)کروانے کے تصورپر زیادہ عمل نہیں کیا جاتا۔اس طرح بچّہ دانی کے مُنہ کے سرطان کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔
Other factors to note are:
دِیگر قابلِ ذکر عوامل ذیل میں درج ہیں
پاکستان کے قوانین کے مطابق زنا بالجبر کی تعریف یہ ہے: متعلقہ دَو افرداکے درمیان قانونی شادی نہ ہونے کی صورت میں متاثرہ فرد کی مرضی کے خلاف یا اُس کی رضامندی کے بغیر جنسی ملاپ کرنا؛ یا 16سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ اُس کی رضامندی یا بغیر رضا مندی کی صورت میں جنسی ملاپ کرنا؛ پاکستان میں دَو شادی شُدہ افراد کے درمیان جبری جنسی ملاپ کو زنا بالجبر قرار نہیں دِیا جاتا ہے۔
زنابالجبر جنسی خواہش کی وجہ سے نہیں کیا جاتا بلکہ یہ عمل دُوسرے فرد پر غالب آنے یا اُس پر کنٹرول حاصل کرنے یا ظاہر کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ زنابالجبر کی صورت میں ،جنسی ملاپ کو دُوسرے فرد پر قُوّت اور غلبہ حاصل کرنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بات یاد رکھنا اہم ہے کہ زنابالجبر ایک جُرم ہے۔یہ کسی بھی صورت میں متاثرہ فرد کا قصور نہیں ہوتا۔ زنابالجبر سے متاثرہ فرد کو شدید ذہنی صدمہ ہوتا ہے اور اُسے اس مشکل وقت میں اپنے عزیزوں کی جانب سے مدد اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
زنا بالجبر کی صورت میں درجِ ذیل اُمور کو یقینی بنایا جائے:
زنا بالجبر کی صورت میں، مقدّمہ دائر کرنے کا اِرادہ رکھنے والے فرد کو حکومت کے مقرّر کردہ ڈاکٹر سے، جو مقرّرہ سرکاری ہسپتال میں تعینات ہو، اپنا طبّی معائنہ کروانا ہوتا ہے۔ ایسے متاثرہ افرادکا معائنہ کرنے والے شُعبے کو میڈیکو لیگل شُعبہ کہا جاتا ہے۔ میڈیکو لیگل معائنے کے دَو مقاصد ہیں: متاثرہ افراد کو فوری اور بنیادی طبّی سہولت فراہم کرنا اور طبّی شواہد جمع کرنا جن کااستعمال قانونی کارروائی کے دوران کیا جاتا ہے۔
شہر کے بڑے سِول ہسپتالوں میں خاتون میڈیکو لیگل افسر بھی دستیاب ہوتی ہیں۔اگر وہ دستیاب نہ ہوں تو انہیں بُلائے جانے کی درخواست کی جاسکتی ہے تا کہ مطلوبہ معائنہ کیا جا سکے۔
میڈیکو لیگل معائنے کے لئے کسی خط، حوالے یا ایف آئی آر کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ قانون یہ ہے کہ کسی قِسم کے خط یا آیف آئی آرکے بغیر بھی متاثرہ فرد کا میڈیکو لیگل معائنہ کیا جائے۔ درحقیقت میڈیکو لیگل افسراس بات کا پابند ہے کہ قریبی پولیس اِسٹیشن کو اطلاع دے کر ہر قِسم کی معاونت کی جائے۔
میڈیکو لیگل افسر ،زنابالجبر کی تصدیق کے لئے ،فُرج یا مقعد کا معائنہ کرتا/کرتی ہے۔متاثرہ فرد کی بیرونی(کٹاؤ ،خراشیں وغیرہ) اور اندرونی (ہڈّی کا ٹُوٹ جانا،خون آنا وغیرہ)چوٹوں اور زخموں کا معائنہ بھی کیا جاتا ہے، شواہد جمع کئے جاتے ہیں اور ان کا ریکارڈ میں اندراج کیا جاتا ہے۔ زنابالجبر کے واقعے کو کچھ عرصہ گزرنے جانے کی صورت میں ،میڈیکو لیگل مرکز پر حمل کاٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے۔ زنابالجبر کے واقعے کے فوری بعدمیڈیکو لیگل مرکز سے رجوع کرنے کی صورت میں ،حمل کے ٹیسٹ کے لئے چند ہفتوں بعد اسی ہسپتال دُوبارہ جانا ہوتا ہے۔متاثرہ فرد کے خون کا گروپ معلوم کرنے کے لئے مطلوبہ ٹیسٹ کے لئے بھی کہا جا سکتا ہے۔.
میڈیکو لیگل سرٹیفیکیٹ میں معائنے کی تفصیلات کا اندراج ہوتا ہے۔یہ سرٹیفیکیٹ عدالت میں ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا ،اِس پر دستخط کرنے سے پہلے اس کی تفصیلات کو غور سے پڑھ لینا چاہئے۔
جِرح کے لئے جمع کئے جانے والے حقائق کی صورت میں ،ان حقائق کے تجزیے سے پہلے حتمی میڈیکو لیگل سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیاجاسکتا ۔اس عمل میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔دستیاب ہونے کی صورت میں میڈیکو لیگل سرٹیفیکیٹ کی نقل ضرور حاصل کی جائے۔
یہ معائنہ بِلا معاوضہ کیا جاتا ہے۔البتّہ معائنے کے لئے مطلوبہ اشیاء مثلأٔ دستانے ،کاٹن ،شیشے کی بوتلیں وغیرہ خریدنے کے لئے کہا جاسکتا ہے۔ درجِ ذیل اداروں سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے
آپ کا ای میل کرنے کے لئے شکریہ ، آپ کو 24 گھنٹے میں جواب دیا جائے گا .