زیادہ لوگوں کو جنسی لطف کی انتہا کا تجربہ خود لذّتی کے ذریعے ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ کیفیت جنسی ملاپ، ایک دُوسرے کو چھونے یا خواب کے دوران حاصل ہوتی ہے۔ بعض نوبالغ، خود لذّتی کے عمل کو غلط سمجھتے ہیں اوریہ عمل کرنے کے بعد احساس گناہ اور دِیگر منفی احساسات محسوس کرتے ہیں،جب کہ ایسا خیال کرنے کی کوئی ضرورت قطعی نہیں ہوتی۔
جنسیات کے بہت سے ماہرین، خود لذّتی کو نو بلوغت کا ایک اہم حِصّہ سمجھتے ہیں کیوں کہ اِس کے ذریعے جنسی تناؤ میں کمی آتی ہے اور وہ اِس کے ذریعے وہ بالغ ہونے کے بعد جنسی ملاپ کے دوران جنسی لطف آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔
بلوغت کے دوران ہونے والی اہم تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی جنسی خواہش کا ہونا ہے۔ لہٰذاخود لذّتی کا عمل فطری ہے اور ایڈز اور جنسی مسائل سے بچنے کا ایک محفوظ ترین طریقہ ہے۔ لہٰذا خود لذّتی کرنا یا نہ کرنا فرد کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ فیصلہ احساس گناہ، شرم یا خوف کے بغیر ہونا چاہئے۔
جنسی لطف حاصل کرنے کے لئے کی جانے والی خود لذّتی نقصان دہ نہیں ہوتی۔بعض افراد خود لذّتی کا عمل کبھی کبھار ہی کرتے ہیں ۔جب کہ بعض افرادیہ عمل زیادہ مرتبہ کرتے ہیں ۔بعض صورتوں میں یہ عمل ایک دِن میں کئی مرتبہ کیا جاتا ہے۔تو یہ بات کس صورت میں کہی جاسکتی ہے کہ متعلقہ فرد،خود لذّتی کا عمل معمول سے زیادہ کر رہا ہے؟جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے جنسی ملاپ کی طرح ،خود لذّتی کا عمل بھی دِماغ اور جسم میں بعض کیمیائی اجزائ(مثلأٔ دِماغ میں acetylcholine اور جسم میں serotonineاور dopamine) کے اخراج کا سبب بنتا ہے ۔جن کے نتیجے میں نفسیاتی اور جسمانی لحاظ سے سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے ۔محدود مقدار میں اِن کیمیائی اجزاء کا اخراج ہمارے لئے بہتر ہوتا ہے
۔تاہم اِن کیمیائی اجزاء کی زیادہ مقدار خارج ہونے کی صورت میں یہ جسم کے اندر دیر تک موجود رہتے ہیں اور نقصان دہ نفسیاتی اور جسمانی اثرات کا سبب بنتے ہیں مثلأٔ توجّہ قائم رکھنے میں دُشواری، یادداشت میں کمی، نیند میں خلل ،اور جسمانی سُستی /کاہلی وغیرہ ۔جب خود لذّتی کا عمل کثرت سے کیا جاتا ہے اِن کیمیائی اجزاء کو بنانے والے خُلیات کو بار بار تحریک ملتی ہے۔نتیجے کے طور پر نہ صِرف اِن خُلیات کا عمل تیز ہوجاتاہے بلکہ اِن کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے لہٰذا جب کوئی فرد خود لذّتی کا عمل کرتاہے تو یہ کیمیائی اجزاء ،جسم میں معمول سے زیادہ مقدار میں شامل ہوجاتے ہیں اور معمول سے زائد اثرات جسم پر مُرتّب ہوتے ہیں۔
یہ کیمیائی اجزاء ہمارے جسم میں ایک قِسم کے اعصابی نظام(parasympathetic nervous system) کو بھی کنٹرول کرتے ہیں ۔یہ نظام عضو تناسل میں تناؤ پیدا کرتاہے ۔اِن کیمیائی اجزاء کا زائد مقدار میں اخراج اِس اعصابی نظام (parasympathtic)کو بھی متاثر کرتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ،مَردوں میں عضو تناسل کے تناؤ میں خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔
تو یہ بات کس طرح طے ہوسکتی کہ خود لذّتی کا عمل کثرت سے کیا جا رہا ہے؟اِس بات کا جواب آسان جواب یہ ہے کہ جب متعلقہ فرد یہ محسوس کرے کہ وہ خود لذّتی کے عمل کا عادی ہوگیا ہے اور وہ یہ عمل جنسی لطف کے لئے نہیں بلکہ ذہنی اور جسمانی سکون کے لئے کر رہا ہے ۔یہی وہ وقت یا مرحلہ ہوتا ہے جب متعلقہ فرد کو خود کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ضرورت ہو پیشہ ورانہ مدد حاصل کی جائے۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران عُریاں فلمیں /تصاویر کا رواج بہت عام ہوگیا ہے ۔خود لذّتی کا عمل کرنے والے افراد میں سے 80فیصد مَرد اور 40فیصد عورتیں زیادہ تر صورتوں میں عُریاں فلموں اور تصاویر کے ذریعے یہ عمل کرتے ہیں۔
اگرچہ خود لذّتی کا عمل نقصان دہ نہیں ہوتا تاہم یہ عمل مسائل پیدا کر سکتا ہے خاص طور پر مَردوں کے لئے ،جب وہ عُریاں فلموں /تصاویر کے ذریعے خود لذّتی کا عمل کرتے ہیں۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ جنسی ملاپ کی طرح ،خود لذّتی کا عمل بھی جسم میں بعض کیمیائی اجزاء کے اخراج کا سبب بنتا ہے جن کے ذریعے نہ صِرف جسمانی اور ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے بلکہ اِن کے ذریعے parasympathetic
اعصابی نظام بھی کنٹرول ہوتا ہے ۔یہ اعصابی نظام جنسی بیداری کی سطح(اور مَردوں میں عضو تناسل کے تناؤ) کو کنٹرول کرتا ہے۔اعصابی نظام ایک اورقِسم کے parasympathetic اعصابی نظام کے ساتھ ایک نازک اور دُرست توازن قائم رکھتا ہے۔یہ دُوسری قِسم کا اعصابی نظام مَردوں میں انزال (ejaculation)اورجنسی لطف کی انتہائی کیفیت (orgasm)کو کنٹرول کرتا ہے ۔
عُریاں فلموں /تصاویر کے ذریعے خود لذّتی کے عمل کی وجہ سے دِماغ میں متعلقہ کیمیائی اجزاء کا زیادہ اخراج ہوتا ہے اور زیادہ جنسی لطف حاصل ہوتا ہے ۔تاہم اِس عمل کو عادت بنا لینے سے متعلقہ خُلیات کے عمل اور ان کی تعداد میں اِضافہ ہوجاتا ہے جس سے دونوں قِسم کے اعصابی نظاموں کے درمیان پایا جانے والا نازک اور دُرست توازن متاثر ہو سکتا ہے اور نتیجے کے طور پر جنسی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ، اور مَردوں میں خاص طور پر عضو تناسل کے تناؤ سے متعلق مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
عورتوں میں ،دِماغ کے اندر اِن ہارمونز کی زائد گردش کی عادت ہوجانے کی وجہ سے اُنہیں معمول کی جنسی سرگرمی کے دوران جنسی لطف کی انتہا ئی کیفیت(orgasm) حاصل کرنے میں دُشواری پیش آسکتی ہے ۔
لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کے لئے خود لذّتی کا عمل زیادہ قابلِ قبول ہے۔
لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے خود لذّتی کا عمل یکساں طور پر معمول کے مطابق ہے۔ دونوں ہی یہ عمل کرتے ہیں۔
خود لذّتی کا عمل وہ بچّہ کرتا ہے جسے اپنی عمر کے لحاظ سے نا مناسب جنسی معلومات حاصل ہوئی ہوں ۔
پیدائش کے وقت سے، بچّے اپنے جسم کو چُھو کر محسوس کرتے ہیں۔وہ اس سے لذّت محسوس کرتے ہیں۔خود لذّتی کے علاوہ جنسی عمل کے اظہارکے معنیٰ یہ ہو سکتے ہیں کہ اُنہیں نا مناسب جنسی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
خود لذّتی کے عمل سے چہرے پر دانے یا نظر کی کمزوری ہوجاتی ہے۔
اِس غلط فہمی کا سبب شاید یہ ہے کہ نو بالغ عمومأٔ بلوغت کے آغاز کے ساتھ ہی خود لذّتی کا عمل شروع کرتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب چہرے پر دانے نکلتے ہیں اور بہت سے افراد کو عینک کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
خود لذّتی کے عمل سے جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔
مرض کی ‘‘منتقلی’’ دَو افرادکے درمیان ہوتی ہے۔جنسی تعلیم کے بعض نصابوں میں، در حقیقت جنسی امراض کی منتقلی سے بچاؤ کے لئے، باہمی خود لذّتی سکھائی جاتی ہے۔
خود لذّتی کے عمل سے ہتھیلیوں پر بال اُگ جاتے ہیں۔
بالغوں میں سے تقریبأٔ 98فیصد افراد کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے زندگی میں کبھی کبھی خود لذّتی کا عمل کیا ہے۔ اور اُن میں سے کسی کی ہتھیلیوں پر با ل نہیں اُگے۔ آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟
نوبالغوں کو خود لذّتی کا عمل زیادہ نہیں کرنا چاہئے ورنہ اُن میں بچّہ ہونے/ پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔
بالغوں کی نسبت نو بالغوں میں خود لذّتی کا عمل کرنے کا رُجحان زیادہ ہوتا ہے، کیوں کہ اُن کے ہارمونز کی سطح اپنے بلند ترین معیار پر ہوتی ہے۔
آپ کا ای میل کرنے کے لئے شکریہ ، آپ کو 24 گھنٹے میں جواب دیا جائے گا .